Orhan

Add To collaction

آتشِ عشق

آتشِ عشق از سیدہ قسط نمبر4

کون سا پولیس والا تھا۔۔۔۔۔خان بابا تھانے میں تھے بیا بھی انکے ساتھ تھی لیکن وه انکے پیچھے چھپ کر کھڑی تھی۔۔۔۔خان بابا نے تھانے میں ادھر ادھر کام کرتے پولیس والوں کو دیکھتے ہوۓ بیا سے پوچھا۔۔۔۔۔ وه ہے۔۔۔۔جو وہاں چیر پہ بیٹھا فائل پڑھ رہا ہے بیا نے فائل میں مصروف ورقہ کو دیکھتے ہوۓ کہا بیا بی بی یہ تو دیکھنے میں اتنا ہٹاکٹا لگ رہا ہے میں کیا بولوں گا۔۔۔۔نہیں نہیں میں نہیں کر سکتا بات جا رہا ہوں خان واپس ڈر کر پلٹنے لگے کیا کر رہیں بائیک نہیں لینی۔۔۔بیا نے واپس انکو پکڑ کے آگے دہکیلا۔۔۔۔ اگر مجھے کچھ ہوا نہ تو آپ ذمدار ہونگی۔۔۔۔ ارے آپ کیوں مجھے ڈرا رہیں چلیں نہ بیا نے رونے والا منہ بنا کر کہا دونوں ورقہ کے قریب آے بیا ابھی بھی خان بابا کے پیچھے ہی تھی السلام علیکم!خان بابا نے ورقہ کو سلام کیا جو فائل میں میں مصروف تھا خان بابا کی آواز پہ انکی طرف مخاطب ہوا وعلیکم السلام۔۔۔جی بولیں سر وه صبح آپ نے بائیک۔۔۔۔۔۔خان بابا سے آگے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا جی بائیک۔۔۔۔۔ورقہ نے انکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا وه۔۔۔سر وه۔۔۔۔ارے ہٹیں آپ سے کچھ ہوتا بیا بلکول اچانک پیچھے سے نکلی ۔۔۔۔ ورقہ اسے دیکھتے ہی پہچان گیا دیکھیں سر۔۔۔مجھے سے غلطی ہوگی۔۔۔بائیک خان بابا کی تھی میں شوق میں لے کر نکل گئی پلز واپس دے دیں بائیک۔۔۔۔۔بیا نے معصومیت سے کہا دیکھیں آپ چچا۔۔۔۔۔آپ کو خیال ہونا چاہیے۔۔۔۔اگر میری گاڑی کے بجاے یہ کسی اور کی گاڑی ٹھوک دیتی تو کیا ہوتا آپ کو اندازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ جی سر میں جانتا اب میں کیا کروں انکا سنتی نہیں ہیں۔۔۔۔ توبہ توبہ!خان بابا آپ یہاں بھی شروع ہوگے بیا نے کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا دیکھائیں بی بی پولیس سٹیشن ہے یہ۔۔۔۔۔ورقہ نے تھوڑی سختی سے کہا کیا ہوگیا ورقہ صاحب۔۔۔۔بیا کچھ کہتی اس سے پہلے بیا کو اپنے پیچھے سے آواز آئی کچھ نہیں ہوا ملک صاحب آپ جا سکھتے ہیں۔۔۔۔۔ورقہ نے خشک لہجے میں کہا آپ بتائیں کیا ہوا مس۔۔۔۔۔وه بیا کے قریب آکر عجیب انداز میں پوچھنے لگا وه بیا کے اور قریب آتا اس سے پہلے ورقہ نے بیا کا ہاتھ پکڑ کے پیچھے کیا اور خود اسکی جگہ پر کھڑا ہوگیا ملک تجھے بہت دفع کہا ہے پھر کہہ رہا ہوں میرے معاملے میں مت ٹانگ اڑایا کر ورقہ نے دانت پیستے ہوۓ غصہ سے کہا احمد!۔۔۔احمد۔۔۔ورقہ نے احمد کو آواز دی احمد بھاگتے ہوۓ آیا احمد انکی بائیک دو اور جب تک یہ چلے نہ جائیں انکو دیکھنا۔۔۔۔۔وه دیکھ ملک کی طرف رہا تھا لیکن بول احمد سے رہا تھا جی سر۔۔۔میڈم چلیں بیا جاتے جاتے بھی موڑ کر ورقہ کو دیکھ رہی تھی


جی بولیں کیا بات ہے۔۔۔۔۔روحان نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوۓ زہرہ سے پوچھا۔۔۔۔ بیٹا یہاں گھر کے لوگوں سے تم واقف ہو۔۔۔۔زہرہ کچھ گھبرائی ہوئیں تھی اماں بولیں۔۔۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔۔ بیٹا مجھے پتا ہے انابیہ بچی ہے تم سے بہت اٹیج ہے لیکن بیٹا اب وه بڑی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔بیٹا۔۔۔تم۔۔۔۔زہرہ کچھ کہنا چاہا رہی تھی لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے مور میں سمجھ گیا آپ کیا کہنا چاہا رہی ہیں روحان زہرہ کی بات سمجھ گیا تھا بیٹا تم سمجھتے ہو دیکھو نہ دادی آغا جان اور باقی سب کیسی کیسی بتائیں کرتے ہیں۔۔۔۔ مور آپ کو لگتا ہے مجھے انکی باتوں کی پرواہ ہے۔۔۔۔آپ کو پتا ہے نہ انابیہ نے جب سے اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں اسے آپ میں اور حفصہ کے علاوہ کوئی محبت کے لئے نہیں ملا۔۔۔۔۔ لیکن بیٹا۔۔۔۔۔مور میں جانتا ہوں میں اسے خود مانا نہیں کر سکتا لیکن مجھے پتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے وه بڑی ہوگی وه خود سمجھ جائے گی روحان نے زہرہ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا اگر تم کہہ رہے ہو تو ٹھیک ہے لیکن ایک اور بات ہے۔۔۔۔ بولیں۔۔۔۔۔!!!بیٹا وه انابیہ بتا رہی تھی اسے جمیل اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب مور۔۔۔۔۔!!!بیٹا وه کہہ رہی تھی وه اسے عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔۔۔۔مانا وه چھوٹی ہے لیکن عورت ہے اور عورت اپنے اپر پڑنے والی ہر نظر پہچان لیتی ہے کون کس نظر سے دیکھ رہا ہے ٹھیک کہا آپ نے اس جمیل کو تو میں دیکھ لونگا۔۔۔۔ میں چائی لے آئی۔۔۔۔تبھی انابیہ ہاتھ میں ٹرے لئے اندر آئی ارے زبردست میں نے تمہارے ہاتھ کی چائی کو بہت مس کیا۔۔۔۔روحان نے کپ لیتے ہوۓ کہا


میں یہاں بیٹھ جاؤں۔۔۔انشرا کتاب کھولے پڑھنے میں مصروف تھی تبھی اسے آواز آئی اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وه پہلے دن والا لڑکا کھڑا تھا جی بیٹھ جائیں۔۔۔۔۔ انشرا پھر پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔سنیں۔۔۔انشرا میں آپ سے کچھ بات کرنے آیا ہوں مجھے سے۔۔۔۔۔جی آپ سے۔۔۔۔۔اس نے کہا جی بولیں. ۔۔۔۔۔انشرا اسکے جناب مخاطب ہوئی وه آپ کی دوست جو ہے وه جو چادر میں ہوتی ہے اسے نام نہیں معلوم تھا تبھی حولیا بتا رہا تھا جی وه میری دوست حفصہ ہے۔۔۔۔۔ جی وہی میں اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ مگر کیوں ؟ دیکھائیں مجھے غلط میں سمجھیں۔۔۔۔میں گھوما کر بات کرنے کا عادی نہیں ہوں۔۔۔۔مجھے آپ کی دوست مطلب حفصہ پسند ہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی وه سب سے بلکول الگ رہتی ہے میں نےاب تک آپ کے علاوہ اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھا دیکھائیں مسٹر آپ پسند کرتے ہیں اسے یہ آپ کے لئے اچھا ہے لیکن اس کے لئے نہیں۔۔۔۔آپ کو پتا بھی ہے وه کس فیملی سے ہے دیکھائیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کس فیملی سے ہے مجھے بس وه پسند ہے۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات مجھے بتا دی لیکن اسے مت بتائیے گا۔۔۔۔وه سوات سے صرف یہاں پڑھنے آئی ہے وه بھی گھر والوں کے خلاف اپنے بھائی کی وجہ سے۔۔۔۔۔آپ اسکا پیچھا چھوڑ دیں آپ کو تو کچھ نہیں ہوگا لیکن اسے بہت کچھ ہو جائے گا انشرا صاف صاف کہہ کر اٹھ کر چلی گئی ایسی بھی کیا بات ہے کے یہ بھی اس سے خوف زدہ ہے اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا حفصہ بیٹھی روم میں پڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔لیکن انشرا کسی سوچ میں گھوم تھی۔۔۔۔ کیا ہو گیا میڈم۔۔۔۔؟حفصہ کی نظریں کتاب پہ تھی لیکن بات وه انشرا سے کر رہی تھی حفصہ یار ایک بات مجھے پریشان کر رہی ہے سمجھ نہیں آرہا بتاؤں یا نہیں۔۔۔۔۔ انشرا کو اس طرح پریشان دیکھ کر حفصہ کتاب بند کر کے مکمل اس کے جانب مخاطب ہوئی کیا بات ہے بتاؤں۔۔۔۔۔ حفصہ۔۔۔۔یار وه پہلے دن والا لڑکا یاد ہے۔۔۔۔۔انشرا نے اسے یاد دلاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔ ہاں یاد ہے کیا ہوا۔۔۔۔۔حفصہ کو کچھ گڑبڑ لگی ہے۔۔۔۔ یار وه آج میرے پاس آیا تھا وه کہہ رہا تھا وه پسند کرتا ہے تمھیں۔۔۔۔ کیا کہے رہی ہو۔۔۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں اسلئے آگے پیچھے گھومتا ہے۔۔۔ تم بس دور رہنا اس سے تمھیں پتا ہے نہ اپنی فیملی کا انشرا نے اسے خبردار کیا


کیا ہوا ملی بائیک۔۔۔۔؟جیسی خان بابا اور بیا گھر آے تو بانو نے پوچھا ارے سانس لینے دو بانو پہلے۔۔۔۔۔۔۔خان بابا نے صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ کہا اچھا میں پانی لے کر آتی ہوں۔۔۔۔بانو نے دونوں کو پانی دیا۔۔ اب بتائیں۔۔۔۔۔۔۔ ارے بانو مل گئی خان بابا کی بائیک۔۔،۔۔۔آرام سے دے دی انہوں نے آپ ایسی ہی ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔ بیا بی بی وه دوسرا آفسر بیچ میں آگیا تھا ورنہ تو اتنے آرام سے نہیں دیتا وه پولیس آفسر۔۔۔۔۔ اچھا بیا بی بی وه بڑے صاحب کا بار بار فون آرہا تھا کیا۔۔۔۔۔۔بانو بانو آپ مجھے اب بتا رہی ہیں مالک آپ نے فون اٹھایا تھا۔۔۔۔۔بیا فون کا سن کر پریشان ہوگئی تھی نہیں میں نے اٹھایا آپ کو پتا ہے مجھے سے جھوٹ نہیں بولا جاتا اگر میں اٹھا لیتی تو سچ بول دیتی اَللّهُ بانو کیا کیا۔۔۔۔۔تم نے خان بابا کو بھی بانو پہ غصہ آرہا تھا جب کے بیا بھاگتی ہوئی روم میں گئی فون اٹھایا اور جلدی سے نمبر ملا یا پہلی بار میں ہی کال اٹھا کی گئی تھی کہاں تھی تم کب سے فون کر رہا تھا میں۔۔۔۔۔دوسری جانب سے سخت لہجے میں کہا گیا ارے وه میں خان بابا کے ساتھ کھانا کا سامان لینے چلی گئی تھی اور فون گھر پہ بھول گئی تھی بیا نے معصومیت سے کہا بیا تمھیں پتا ہے میں کتنا پریشان ہو جاتا ہوں تم یار کیوں تنگ کرتی ہو۔۔۔۔۔ سوری نہ میں نے جان کر نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے لیکن اب خیال رکھنا ٹھیک ہے۔۔۔۔ جی ٹھیک ہے۔۔۔۔ اور بتاؤ۔۔۔۔ پھر بیا گھنٹوں فون پہ ادھر ادھر کی بتائیں کرنے لگی

   0
0 Comments